Hajj series 1


اللہ تعالیٰ مجھے بلائیں گے ایسے۔ یہ ذہن و گمان میں بھی نہیں تھا۔ بیشک اللہ ہی راستے بناتے ہیں۔ ہم تو بس کوشش اور دعا کے مکلف ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کیسا لگ رہا ہے۔ کیسی فیلنگز ہیں۔ کیا بتاؤں۔ کچھ فيلنگز ہی نہیں۔ پہلے پہل تو ہر بات پر رونا آجاتا تھا۔ چا ہے حج سے متعلق ہو یہ کسی اور چیز سے۔ آنسو تیار تھے کہ نکل آجائیں۔ رفتا رفتا آنسوکچھ تھمنا تو شروع ہوئے لیکن حج کی کہانیاں سن کر پھر نکل اتے۔۔ اللہ کے جلوے عرفات میں۔۔ وہ مزدلفہ میں قیام۔ کہانیاں سن کر ہی دل بھر آجاتا ہے۔ ایک عجیب سی فیلنگ ہے جسے بیان نہیں کرپا رہی۔ جس کو کسی سے پیار ہوجائے تو بٹر فلی ان سٹمک والا محاورہ تو سنا تھا۔ لیکن حج كا سوچ کر بٹر فلیئز آجائیں یہ پتہ نہیں تھا۔ اگر کسی کو میرا معلوم ہے تو اُن کو یہ پتہ ہے کے مجھے کسی کے سامنے رونا اچھا نہیں لگتا ۔ جب کہیں جاؤ حج کی بات ہو تو ادھر اُدھر بات گھوما دینا میرا کام ہے آج کل۔

اساتذہ کرام نے حج کے متعلق جب معلومات بھیجی تو بھی پڑھ کر آنسو جاری ہوگئے۔ کہاں تھی یہ اوقات ۔ نہ اعمال ہیں۔ نہ ہی کوئی اوقات۔ بس جسے اللہ چاہیں نواز دیں۔ اللّٰہ کا ہی کرم ہے خاص۔ کچھ کچھ لگتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی سب سے فیوریٹ ہوں لیکن بس خیال آتا ہے کہ کہیں اور کنفیڈنس میں نہیں آ جائے ۔

ابھی میں جہاز میں ہوں پاکستان کے لیے۔ پاکستان کے جھمیلوں اور دُنیا داری سے ہمیشہ سے ڈر لگتا ہے۔ لیکن آج جب کے یہ سفر اصل تو حج کے لیے ہے۔ بُہت زیادہ ڈر لگ رہا ہے۔ حاجی صاحب ہونے کا ٹیگ لگنے کا ڈر ۔ دعوتوں میں پڑ کر اللہ کو بھول جانے کا ڈر ۔ ويسی اتنے کمزور ایمان والی ہوں ۔ کہیں گرتی کوئی دیوار کو ایک دھکا نہ لگ جائے۔

Part 2
پاکستان پونچھ گئے ہم۔ پاکستان کی زندگی بُہت افرا تفریح والی ہے۔ پتہ نہیں کہیں میں بُہت ولایتی تو نہیں ہو گئ۔ ہر ہر بندہ اپنے اندر تھوڑا سکون اور اطمینان لے آئے تو اپنے ساتھ دوسرے کی زندگی کو بھی سکون ملےگا۔
گاڑی چلانا ہو یہ ڈاکٹر جانا ہو یہ شپنگ جانا ہو۔ ہر طرف نفسا نفسی ہے۔ کبھی سوچتی ہوں یہ ایسا ہے تو قیامت کیسی ہوگی


کل حیدری گئی کچھ حج کی تیاری کے لیے۔ اچھا خاصا چل رہی تھی۔ کسی کو نہ چھیڑا پھر بھی پیچھے سے گاڑی نے میرے ٹانگ پر اپنی گاڑی گھسا دی۔ بڑے غصّے سے میں نے گاڑی چلانے والے کو دیکھا ۔ نکلی ایک باجی ڈرائیور۔ ۔ جو بُہت معصومیت سے مارنے کے باوجود چلائے جا رہی تھیں کیوں کہ باجی کو احساس ہی نہیں ہوا۔ بس ۔۔ گھسا ٹھنڈا ہوگیا۔۔ سوچا کہ میں بھی ٹھیک۔ ٹانگ بھی ٹھیک۔ آگے چلو خوشی بانٹو ۔ کل ہو نہ ہو۔

پھر حاجی کیمپ جانے کے لیے صدر جانے کا اتفاق ہوگیا پھر تو اور سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ پاکستان کی عوام کو ہو کیا گیا ہے۔ مجھے تو لوگوں کو دیکھ دیکھ کر ہی سر درد شروع ہوگیا۔ کیا الجھنے لیے پھرتے ہیں چہروں پر۔ مجھے تو دیکھ کر ہی ڈپریشن ہوجائے ۔ ویسے تو حالات بھی ایسے ہی ہیں پاکستان کے۔ کیا کریں بیچارے۔ شوہر کمانے میں لگے ہیں اور بیویاں عید کی شاپنگ کرنے میں ۔ بات کڑوی لگےگی لیکن ہے سچ۔ بازاروں کا حال چیخ چیخ کر یہی بول رہا ہے۔ خیر ۔۔۔بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر بات کا پتنگر بنا کر فائدہ نہیں ہوتا۔ ڈرائیونگ تھوڑا آہستہ کرلیں گے تو کسی کا جانی یہ ما لی نقصان نہیں ہوگا۔ کہیں کوئی تو کوآپریٹ کرے نہ۔

Leave a comment