Hajj series 2


سفر شروع ہو چکا ہے جدّہ کا ۔ الٹی الٹی سی ا رہی ہے۔ جیسے نروز ہونے پر ہوتا ہے۔ یہ انزیٹی کے وقت۔
فواز اور اواب کی شکل دیکھ کر آیت یاد آگئی تھی۔ جس کا مفہوم ہے اولاد اور مال ایک فتنہ ہے۔ بیشک اولاد ایک بُہت بڑا امتحان ہے جو ہمیں قدم قدم پر اس کا احساس دلاتا ہے کہ دنیا سے زیادہ محبت ہے یہ اللہ سے۔۔۔ کڑوا سچ۔ ۔ ۔ پر یہ مودہ بھی تو اللہ کی دی ہوئی ہے۔ اللہ کے لیے گھر سے نکلے ہیں ۔۔ ان شاء اللہ اللہ سے بہتر ان کا کوئی خیال نہیں رکھ سکتا۔
لبیک کی آوازیں گونجیں جہاز میں تو دل زور زور دھک دھک کرنے لگا ہے۔ کہاں آگئی ہوں ۔ کیسے آ گئی ہوں۔ گناہ یاد آ رہے ہیں۔ خیال آ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی گناہگار بندی بھی لبّیک کہہ رہی ہے۔ معاف کردے ۔ قبول کرلیں نہ۔۔۔۔
جدّہ سے مکہ سفر بُہت لمبا لگا۔ ہم رات دو بجے پونچھے ہوٹل۔ ہوٹل پونچھے تو آواز آئی کہ پہلے آرام کر لیں ۔ ارے بھائی یہاں کہاں آرام ۔ ہم نکلے حرم کے لیے تو عجیب فیلنگ تھیں۔ لگ رہا تھا ایگزیم دینے جا رہی ہُوں ۔کس چیز کا ایگزام ۔ اپنے اعمال نامہ کا۔ ۔ اگر ابھی یہ حالات ہیں تو قیامت میں کیا سما ہوگا جب لوگ اپنے اپنے پسینہ میں ڈوب رہے ہونگے۔ گناہ کا پسینہ ۔ اللهم انی اعوذبک منّ النار۔ ۔
دس سال میں حرم بُہت بدل گیا ہے۔ بُہت بڑا کردیا ہے ۔ تو ہم چل رہے تھے۔ ایک دم کعبہ نظر آیا۔ اور میں بالکل ایسے ہوگئی کہ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ کیا ہوا ہے مجھے۔ میں میاں جی کو بتا بھی نہیں پائی کہ سامنے کعبہ کا حصہ نظر آ رہا ہے۔ بس آنسو بہ رہے تھے اور قدم بڑھ رہے تھے۔
انہوں نے بولا وفا دیکھو۔ کعبہ ۔ میں نے بس سر ہلا دیا ۔ انہوں نے دوبارہ بولا ۔ ہمت ہی نہیں تھی کہ جی بھی بولوں ۔ دوبارہ بس سر ہلا دیا۔ فجر کی اذان کی آواز کانوں میں گونجنے لگیں۔ کیا مسمریزنگ مومنٹ تھا وہ۔
ہم نے جلدی سے اپنی جگہ پکڑی اور پھر پہلی نماز حرم کی پڑھنی شروع کی۔ وہ سکینت کہیں مل ہی نہیں سکتی۔ وہ سکون ۔ وہ آرام۔ وہ سرور ۔ یہ اللہ کے گھر ہی مل سکتی ہے۔ آیات جو تلاوت کی تھیں وہ بھی کچھ نفس سے متعلق تھیں تو سونے پر سہاگہ ہوگیا۔
اہ و زری کا سما تھا۔۔۔ بس اللہ تعالیٰ ٹوٹی پھوٹی عبادتیں قبول کرلیں۔

روز ہم دوپہر کا کھانا کھا کہ نکلتے اور پھر رات عشا کے بعد گھر آتے۔ ایسے ہی دن آنکھیں بند کرتے ہی گزر گئے اور آ گیا وہ دن جس کا انتظار تھا۔ ایک دن پہلے جب ہمیں منی جانا تھا تو حرم سے نکلنے کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا۔ میں ان سے بار بار کہ رہی تھی کہ ایک طواف اور۔ ایک دفعہ اور بیٹھ کر دل بھر کر دیکھنے دیں۔ لگ رہا تھا واپس انا بُہت مشکل ہوجائیگا ۔

پھر ہم مني کے لیے نکلے۔ جب پونچھے تو سنا تھا کہ چھوٹی چھوٹی جگہیں ہوتی ہیں۔ لیکن چھوٹی جگہ سے زیادہ مجھے لگا کہ کفن کا سامان ہے۔ سفید چادر سوفا کم بیڈ پر۔ اور اوڑھنے کو بھی سفید چادر ۔ جب سب سو رہے تھے تو میرے منہ سے بے اختیار نکلا کہ ایسا لگ رہا ہے جنازے رکھے ہیں۔
بات تھی تو کڑوی ۔ لیکن تھی سچ۔ ۔۔ خیر ۔۔

ہمارے ٹینٹ میں ایک عالمہ تھیں۔ میں نے تو اُن کو پکڑ لیا ۔ پتہ چلا کہ انہوں نے ۳-۴ شیخ سے اجازت لی ہوئی ہے تجوید میں ۔ حافظہ قرآن ۔۔ اور بھی بُہت کچھ ان کی پروفائل میں تھا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے۔ میں نے پیچھا نہیں چھوڑا ہے۔

اُن سے تجوید کے حوالے سے بُہت بات ہوئی۔ الحمدللہ ۔ پھر اگلا دن عرفات کا تھا۔ سب تیار بیٹھے تھے۔ یہ بھی رکھلو ۔ وہ بھی رکھ لو۔ ایک دن عرفات ایک دن مزدلفہ۔

Leave a comment